اسلام میں حیاء کی اہمیت
حیاء انسان کی فطری صفت ہیے۔ جو شخص جتنا زیادہ حیادار ہوگا وہ اپنے معاشرے میں باوقارسمجھا جائے گا اس لئے کہ حیاایک خاص حالت کا نام ہیے شریعت اسلامی میں اس صفت کو نمایاں مقام حاصل ہیے اس سلسلہ کی چند احادیث درج ذیل ہیں۔
حضرت عمران بن حصین رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ءلیہ اسلام نے ارشاد فرمایا : حیاء کا نتیجہ صرف خیر ہیے۔ اور ایک روایت میں ہیے کہ حیا ساری خیر ہی ہے۔
حضرت زید بن طلحہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نبی علیہ لسلام نے ارشاد فرمایا: ہر دین کی (خاص) عادت ہوتی ہیے اور اسلام کی عادت حیا ہیے۔
حضرت ابن عمر رضی الله عنہ نبی کریم علیہ السلام کا ارشاد نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نبی کریم علیہ اسلام نے فرمایا: حیاء اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا بھی خود بخود اٹھ جاتا ہیے
۔حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہیے کی نبی اکرم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: حیاء ایمان کا آہم ترین شعبہ ہیے
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام کا ارشاد ہیے: حیاء ایمان میں سے ہیے اور ایمان (یعنی اہل ایمان) جنت میں ہیں۔ اور بے حیائی بدی میں سے ہیے اور بدی (والے) جہنمی ہیں۔
ویسے تو ہر انسان اپنے اندر کچھہ نہ کچھہ حیاء اور شرم کا مادہ رکھتا ہیے۔ یعنی وہ دوسرے انسانوں کے سامنے عمؤما بے حیائی اور بے شرمی کے کاموں کو پسند نہیں کرتا اور کوشش کرتا ہیے کہ آسے کوئی شخص برائی کرتے وقت نہ دیکھے۔ اسی طرح اپنی بے عزتی کے خیال سے بہیت سے لوگ سر عام برائی سے بچے رہتے ہیں۔ ۔لیکن ان سب باتوں کا داعیہ انسانوں سے شرم کی وجہ سے پیدا ہوتا ہیے جس سے دنیا میں بچاؤ کی بہیت سی شکلیں موجود ہیں مثلا ستر کھولنا ایسا عمل ہیے جو لوگوں کے سامنے حیاء کی وجہ سے نہیں کیا جاتا لیکن خلوت اور تنہائی میں یہ عمل حیا اور مروت کے خلاف نہیں سمجھا جاتا وغیرہ۔
مگر اسلامی شریعت میں حیاء سے مراد محض انسانوں سے حیاء نہیں بلکہ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس الله علیم وخیر سے شرم کرنے کی تلقین کرتا ہیے جو ظاہرہ پوشیدہ حاضر وغائب ہر چیز کو اچھی طرح جاننے والا ہیے اس سے شرم کرنے کا تقاضا یہ ہی کہ جوفعل بھی اس کی نظر میں برا ہو اسے کسی بھی حال میں ہرگز ہرگز نہ کیاجائے اور اپنے تمام اعضاء وجوارح کو اس کا پابند بنایا جائے کہ ان سے کسی بھی ایسے کام کا صد ورنہ ہؤ جو الله تعالی سے شرمانے کے تقاضے کے خلاف ہو۔ ...
حضرت عمران بن حصین رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ءلیہ اسلام نے ارشاد فرمایا : حیاء کا نتیجہ صرف خیر ہیے۔ اور ایک روایت میں ہیے کہ حیا ساری خیر ہی ہے۔
حضرت زید بن طلحہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نبی علیہ لسلام نے ارشاد فرمایا: ہر دین کی (خاص) عادت ہوتی ہیے اور اسلام کی عادت حیا ہیے۔
حضرت ابن عمر رضی الله عنہ نبی کریم علیہ السلام کا ارشاد نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نبی کریم علیہ اسلام نے فرمایا: حیاء اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا بھی خود بخود اٹھ جاتا ہیے
۔حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہیے کی نبی اکرم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: حیاء ایمان کا آہم ترین شعبہ ہیے
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام کا ارشاد ہیے: حیاء ایمان میں سے ہیے اور ایمان (یعنی اہل ایمان) جنت میں ہیں۔ اور بے حیائی بدی میں سے ہیے اور بدی (والے) جہنمی ہیں۔
ویسے تو ہر انسان اپنے اندر کچھہ نہ کچھہ حیاء اور شرم کا مادہ رکھتا ہیے۔ یعنی وہ دوسرے انسانوں کے سامنے عمؤما بے حیائی اور بے شرمی کے کاموں کو پسند نہیں کرتا اور کوشش کرتا ہیے کہ آسے کوئی شخص برائی کرتے وقت نہ دیکھے۔ اسی طرح اپنی بے عزتی کے خیال سے بہیت سے لوگ سر عام برائی سے بچے رہتے ہیں۔ ۔لیکن ان سب باتوں کا داعیہ انسانوں سے شرم کی وجہ سے پیدا ہوتا ہیے جس سے دنیا میں بچاؤ کی بہیت سی شکلیں موجود ہیں مثلا ستر کھولنا ایسا عمل ہیے جو لوگوں کے سامنے حیاء کی وجہ سے نہیں کیا جاتا لیکن خلوت اور تنہائی میں یہ عمل حیا اور مروت کے خلاف نہیں سمجھا جاتا وغیرہ۔
مگر اسلامی شریعت میں حیاء سے مراد محض انسانوں سے حیاء نہیں بلکہ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس الله علیم وخیر سے شرم کرنے کی تلقین کرتا ہیے جو ظاہرہ پوشیدہ حاضر وغائب ہر چیز کو اچھی طرح جاننے والا ہیے اس سے شرم کرنے کا تقاضا یہ ہی کہ جوفعل بھی اس کی نظر میں برا ہو اسے کسی بھی حال میں ہرگز ہرگز نہ کیاجائے اور اپنے تمام اعضاء وجوارح کو اس کا پابند بنایا جائے کہ ان سے کسی بھی ایسے کام کا صد ورنہ ہؤ جو الله تعالی سے شرمانے کے تقاضے کے خلاف ہو۔ ...
very nice :-)
ReplyDelete